Header Ads Widget

آئین میں ستائیسویں ترمیم کی منظوری 27th Amendment in the Constitution

  

تحریر: ممتاز ہاشمی

 


آج سینٹ نے آہین میں ستائیسویں ترمیم کی منظوری دے دی ہے اور جلد ہی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ آہین کا حصہ بن جائے گا۔

اس ترمیم کا اہم ترین نکتہ عدلیہ سے متعلق ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین بشمول عمران خان نے 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے ہوئے آہینی عدالت کے قیام کا اعلان کیا تھا اور آج یہ اہم ترین مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ 

آج جب پی ٹی آئی اس کی مخالفت کر رہی ہے تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کیونکہ عمران خان کی پوری سیاسی زندگی ہی یو ٹرن پر مشتمل رہی ہے اور اس ہیک آج اعادہ کیا گیا ہے۔

عدلیہ سے متعلقہ اس ترمیم کو سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان کی تاریخ کو دوبارہ سے یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کا ایک مختصر خاکہ پیش خدمت ہے:

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے قیام کے آغاز سے ہی سول اور ملٹری دونوں ادارے سیاسی قوتوں اور جمہوریت کے خلاف سازشوں میں مصروف رہیں تاکہ اس نئے ملک میں اپنی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ان کو عدلیہ کی حمایت لازمی تھی انہوں نے عدلیہ مم کر اس طرف راغب کیا اور وہ اس نے اپنے اصل مقصد انصاف کی فراہمی سے انحراف کرنا شروع کر دیا اس سلسلے کا آغاز مشہور مولوی تمیز الدین کیس سے ہوتا ہے جب عدلیہ نے پہلی مرتبہ مارشل لاء کو قانونی تحفظ فراہم کیا جو کہ آئینی طور پر مکمل طور پر ان کے اپنے حلف اور مقاصد سے انحراف تھا

 اس کے بعد ہر آنے والے دور میں عدلیہ کا کردار کوئی قابل رشک نہیں رہا اور ہر اہم قومی اہمیت کے مواقع پر عدلیہ نے ہمیشہ اپنے حلف سے غداری کرتے ہوئے غیر آئینی فوجی آمریتوں کو تحفظ دینے کا کام کیا ہے اس وجہ سے دنیا میں پاکستان کی عدلیہ کی کوئی وقعت نہیں اور دنیا پاکستان کو اسی وجہ سے " ڈیپ سٹیٹ" کے نام سے جانا جاتا رہا ہے۔

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عدلیہ مجبوری کے تحت ایسا کرتی ہے کیونکہ اس کے سامنے جو منظر نامہ ہے اسمیں ایک سرکاری اہلکار اپنے چند جوانوں کو چند ٹرکوں میں اسلحہ کے ساتھ منتخب وزیراعظم کو گرفتار کرکے اور ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کر کے آئین اور جمہوری حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیتا ہے تو ان کے لیے اس پر مزاحمت کرنے کی ہمت نہیں ہو سکتی۔ اس بات میں کچھ صداقت ہے لیکن اگر ان میں اپنے حلف کی پاسداری کی ہمت نہیں ہوتی تو ان کو اس شعبہ کا انتخاب ہی نہیں کرنا چاہیے اور اگر اس منصب پر فائز ہو جائے تو بجائے غیر آئینی مارشل لاء کو جواز مہیا کرنے کے باعزت طور پر استفئ دے کر گھر بیٹھ جانا چاہیے جس کی مثالیں تاریخ میں بہت سے بےباک اور دیانتدار ججوں نے قائم کی ہیں لیکن اکثریت نے ہر موقع پر اپنے حلف سے غداری کرتے ہوئے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

عدلیہ کے گھناؤنے کردار کی چند جھلکیاں ہماری حالیہ تاریخ میں دیکھنے میں ملتی ہے جس میں کرپٹ عدلیہ نے سیاست میں ملوث ہوی اور اس طرح ان کے گھناؤنے کردار کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے 

   عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر کئے گئے دھرنے دوران چیف جسٹس کا کوئی نوٹس نہیں لینا اور اسلام آباد کو 126 دنوں تک مفلوج کر کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کی کوشش 

پاناما پپر کے اجراء کے بعد دوبارہ عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ملک میں احتجاجی مظاہرے دوران چیف جسٹس کا اس کو فون کر کے کہنا کہ وہ ہمارے پاس درخواست لے کر آئے اور ہم پتحقیقات کے لئے کمیشن بنانے ہیں۔ یہ واضح طور پر عدلیہ کے سیاسی معاملات میں مداخلت تھی اس نے اس کے لیے واٹس اہپ پر جی آئی ٹی تشکیل دی جس میں غیر قانونی طور پرملٹری اسٹیبلشمنٹ کو شامل کیا گیا اس کے باوجود جب اس کو کوئی جواز نہیں ملا تو منتخب وزیراعظم کو اقامہ کی بنیاد پر نااہل کر دیا۔ جو کہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی تھا آئین کے تحت وزیراعظم کو صرف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہی عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔

یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب عمران خان کو غیر قانونی طور پر اقتدار دلانے کے لئے انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم کو بند کر کے نتائج بدلے گئے تو عدلیہ خاموش تماشائی کی طرح اس میں شامل رہی 

عمران خاں کے چار سالہ اقتدار میں اس کے تمام غیر قانونی اقدامات پر خاموشی اور اس کے انتقامی اقدامات میں ریاستی اداروں کے غیر قانونی استعمال پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی 

اس دور کے بڑے بڑے کرپشن کے الزامات پر عدلیہ کی طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا 

ریاستی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا واضح ثبوت سابقہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے مکمل طور پر فراہم کئے تھے لیکن عدلیہ اس موقع پر مکمل طور پر خاموش تماشائی بنی رہی اس طرح وہ ان جرائم میں برابر کی حصہ دار قرار دی جا سکتی ہے 

ریاض ملک کے بڑے کرپشن کے اسکینڈل میں عدلیہ کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت سب کے سامنے ہیں 

اس دور میں جو آزاد اور خودمختار جج تھے ان کو اہم نوعیت کے کیسز سے دور رکھا گیا بلکہ ان کی کردار کشی اور ان س جان چھڑانے کی بھرپور کوشش کی گئی جسٹس قاضی فائز عیسی کی مثال اس کا زندہ ثبوت ہے 

 حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے صدر اور پنجاب کے گورنر کے اقدامات پر اعلی عدلیہ کی پراسرا خاموشی 

صدارتی ریفرنس میں سینئر ججوں کی عدم موجودگی اور اس کا فیصلہ آئین کے برخلاف ہے جب کہ بنچ میں شامل دوججوں نے اس خود اس کو آئین میں ترمیم قرار دیا جس کی اعلی عدلیہ کا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا ہے 

 ایک ازخود نوٹس پر چیف جسٹس نے من پسند کا بنچ بنا کر حکومت کو اپنے انتظامی اختیارات سے محروم کردیا تھا جو کہ آئین کی روح کے خلاف تھا ۔ 

عدلیہ کے ان تمام اقدامات کا بظاہر مقصد سیاسی امور میں مداخلت اور حکومت کو غیر مستحکم کرنا تھا۔

جب مسلسل آمرانہ ادوار نے 73 کے آئین کا مکمل طور پر صفایا کرتے ہوئے اس کو آمریت کو تحفظ دینے کا ایک سہارا بنا دیا تھا تو 2010 میں تمام جمہوری قوتوں نے ملکر آہین میں اٹھارویں ترمیم منظور کراہی جس نے آمرانہ دور کی کہی گئی ترامیم کو اس سے خارج کرتے ہوئے اس کی اصل روح کو بحال کر دیا گیا تھا 

ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے اس غیر آئینی گٹھ جوڑ نے ملکی اداروں میں عدم استحکام پیدا کیا اور ادارے تباہ ہونا شروع ہو گئے جس سے کرپشن کو فروغ ملتا رہا اور تمام ریاستی وسائل سرکاری اداروں کے اہلکاروں اور ان سے ملی بھگت کرنے والے پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں لوٹنے کا عمل تیز سے تیز ہوتا گیا۔ جس کی وجہ سے عوام کو مہنگائی و بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا اور مملکت کو چلانے کے لیے قرضوں کی مقدار بڑھتی ہی رہئ۔ یہاں تک کہ چند برس قبل پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا تھا۔

اس موقع اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنی رحمت سے پاکستان میں ایک ایسی راہ دکھائی جس کا تصور بھی محال تھا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں کمانڈ کی اکثریت نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات سے الگ کرنے کا اعلان کیا اور ادارے کو پاکستان میں استحکام و ترقی کے لئے ایک اہم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اللہ کی رحمت سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز کر دیا گیا اور ان کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا گیا۔

اس کے بعد عدلیہ کی اکثریت نے کرپٹ اشرفیہ کے ساتھ ملکر اس نظام کو ناکام بنانے کیلئے تمام تر کوششیں جاری رکھیں۔

واضح رہے کہ عدلیہ میں تقریروں کے اختیارات ججز نے اپنے پاس ہی رکھے اور اس طرح سے اپنی پسند کے چیمبرز کے ججز کو ہی تعینات کرتے تھے جس سے اس نظام میں ان کی اجارہ داری قائم رہی۔ اس میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کا کوئی حصہ نہ تھا۔

اگرچہ میثاق جمہوریت میں اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے پارلیمنٹ کو بھی کردار دیا گیا تھا اور جب اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آہین کی روح کی بحالی اور اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی میں پارلیمنٹ کو شامل کیا گیا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے دھمکی دی کہ وہ پوری کی پوری ترمیم کو منسوخ کر دیں گے اسطرح سے مجبوراً اس کو روک دیا گیا۔

مگر بعد میں 2024 میں ترمیم کی شکل میں نہ صرف پارلیمنٹ کے کردار کو شامل کیا گیا بلکہ ایک آئینی بنچ کی بھی بنیاد رکھی گئی جو صرف آئینی معاملات کو دیکھنے کی مجاز ہو۔ اگرچہ اسوقت بھی آئینی عدالت کی بات کی گئی جو میثاق جمہوریت کا حصہ ہے مگر اسوقت اتحادی حکومت کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہ تھی اسلئے آئینی بنچ پر اکتفا کیا گیا۔

آج جب حکومتی اتحاد کو رو تہائی سے زائد اکثریت حاصل ہے تو اب اس وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے لئے ترمیم کی منظوری حاصل ہو گئی ہے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ دنیا میں اکثر ممالک میں آئینی معاملات کے لیے الگ کورٹ ہوتی ہیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کام عدلیہ بخوبی اور بلا تعطل فراہم کیا جا سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ ججز کی تقرری اور ان کی عمر کے بارے میں بھی اس ترمیم میں شامل ہے اور اسطرح سے اس می پارلیمنٹ کے کردار کا بھی واضح کیا گیا ہے۔ وفاقی آہینی عدالت کے ججز کی عم می اضافہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے

 کیونکہ ججز کا جتنا زیادہ تجربہ ہوتا ہے اتنے ہی وہ زیادہ اچھی طرح آئینی و قانونی معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں اس عمر میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی مثال نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ امریکہ میں سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر تاعمر کے لیے ہوتا ہے۔

دوسری اہم ترمیم کا تعلق آرمڈ فورسز میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کو مستحکم کرنے سے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام افواج کا ایک سنڑل کمانڈ سسٹم ہو جو آرمی چیف کے تحت ہو۔ تاکہ ملکی دفاع معاملات میں مکمل طور پر ہم آہنگی پیدا ہو۔ اسلئے چیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کی پوسٹ کو ختم کر دی گئی ہے جو کہ صرف ایک روایتی عہدہ ہے اور اس کا دفاع معاملات میں کوئی کردار نہیں تھا۔

اس کی جگہ چیف آف آرمی سٹاف کو اب کمانڈر چیف آف ڈیفنس فورسز بھی مقرر کر دیا گیا ہے اسطرح سے افواج کی سنٹرل کمانڈ کا ایک مربوط سسٹم وجود میں آنے گا جو دفاع چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے انتہائی متحرک کردار کا حامل ہو گا۔

جہاں تک اس ترمیم میں پر تنقید کا تعلق ہے تو پہلی بات سب کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ آہین کوئی مقدس دستاویز نہیں ہوتی کہ اس میں رد و بدل نہ کی جا سکے بلکہ دنیا بھر میں مختلف ممالک میں وقت کے تقاضوں کے مطابق آہین میں ترامیم کی جاتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی لیکن ان کو کرنے کا کلی اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے جو اس آہین کی خالق ہوتی ہے۔ اسلئے پارلیمنٹ کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ آہین کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے اپنا کردار ادا کرتی رہی۔

امید ہے کہ آہین میں ستائیسویں ترمیم کے بعد ملکی معاملات میں استحکام پیدا ہو گا اور ریاست ملکی ترقی و خوشحالی کے ایجنڈے پر بھرپور توجہ مرکوز کرے گی اور اسطرح سے عوام کو مہنگائی و بے روزگاری سے نجات دلانے میں کامیابی حاصل کرے گی۔ ان شاءاللہ۔

 

 

 

 

 

Post a Comment

0 Comments