تحریر: ممتاز ہاشمی
آجکل حبیب جالب کی شہرہ آفاق نظم "دستور" کا بڑا چرچا ہے اور سوشل میڈیا پر اس کو پوسٹ کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق ان مراعات یافتہ اور اشرافیہ سے ہے جنہوں نے ہمیشہ آمریت کا ساتھ دیا اور عوامی حقوق کی پامالی میں شریک رہے۔ یہ نظم دراصل انہیں طبقات کے خلاف ایک عظیم مزاحمتی تحریک کا حصہ ہے۔ اس نظم کا پس منظر کچھ اسطرح سے ہے:
1958 میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا، 1962ء میں اسی
ایوبی آمریت نے نام نہاد دستور پیش کیا جس پر جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم "
دستور " کہی
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
اس نظم کو ایک اجتماع میں جب جالب نے پیش کیا جس نے
عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگا دی اور یوں ایوبی آمریت کے خلاف ایک عظیم
مزاحمتی تحریک نے جنم لیا۔
جبیب جالب جس کو شاعر انقلاب کہا جاتا ہے ان کی رہائش
گاہ میرے گھر کرشن نگر لاہور سے ملحقہ علاقے سنت نگر میں تھی وہ ایک انتہائی غریب
خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی آمریت کی خلاف جدوجہد میں
گزاری اور اس دوران نہ صرف متعدد مرتبہ جیل میں رہے بلکہ تحریک کے دوران پولیس اور
آمریت کی حمایتی قوتوں کے تشدد کا نشانہ بھی بنے۔
میں نے مختلف تحریکوں کے دوران ان کو ہمیشہ صف اول میں
پایا۔
جب کراچی منتقل ہو گیا تو ان کو مختلف مواقع اور
تحریکوں میں شرکت کے لیے اکثر دعوت دی جاتی تھی کیونکہ وہ انتہائی غریب طبقے سے
تعلق رکھتے تھے اسلئے ان کے آنے جانے اور رہائش کے لیے انتظامات کیے جاتے تھے۔ اس
دوران چاہیے وہ مزدوروں کی تحریک ہو یا آزادی صحافت کی تحریک ہو۔ انہوں نے ہر موقع
پر اس میں بھرپور کردار ادا کیا۔
اس دوران انہوں نے ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جدوجہد
میں بھرپور کردار ادا کیا تھا اور ریاستی تشدد کا نشانہ بنے تھے۔
ضیاء آمریت کے خلاف ان کی شہرہ آفاق نظم نے انتہائی
مقبولیت اختیار کی اور اس سے آمریت کے ایوانوں میں لرزنے لگے وہ نظم کچھ یوں ہے:
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر
میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری ، کی ہم نے انہی کی غم
خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم ، شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نُما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں ، باطل کے شکنجے میں ہے یہ
جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں ، خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم ، اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شامِ ویراں ، آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دُھن میں نکلے تھے ، وہ شہر دلِ برباد کہاں
صحرا کو چمن، بَن کو گلشن ، بادل کو رِدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فنکارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی ، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملِا ، اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء، صَر صَر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنا
آخری تحریک جس میں میں نے ان کو دیکا وہ ضیاء آمریت کے
خلاف ایم آر ڈی کی 1983 کی تحریک بحالی جمہوریت تھی۔
اس تحریک میں شرکت کے لیے میں نے جو اسوقت بلوچستان کے
دور دراز علاقے میں انجینئرنگ کی جاب کر رہا تھا اس کو چھوڑ کر واپس کراچی آگیا
اور اس تحریک کا حصہ بن گیا۔ اس تحریک سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔
یہ اس مزاحمتی تحریک کا ہی نتیجہ تھا کہ آمر ضیاء کو
ملک میں الیکشن کرانے پر مجبور ہونا پڑا۔
اس کے بعد جب ملک میں جمہوریت قائم ہونے لگی تو ان کو
ان کی خدمات کے اعتراف میں نشان امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا۔
آج جب پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو پاکستان
کی سالمیت اور ترقی کے لئے وقف کر دیا ہے اور سیاسی قوتوں کے ساتھ ملکر ایک اہم
کردار ادا کر رہی ہے جس سے نہ صرف ادارے مضبوط ہو رہے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا
وقار بلند ہو رہا ہے۔
دوسری طرف عدلیہ جو ہمیشہ سے آمریت کو تقویت دینے کیلئے
کام کرتی تھی اور اس میں مختلف چمبرز کے ججز ہی بھرتی کیے جاتے رہے تھے جو کسی نہ
کسی ججز کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور اسطرح سے پوری اعلی عدلیہ میں ایک نہ
ختم ہونے والی آمریت قائم ہو چکی تھی جو جمہوریت کو عدل استحکام سے دوچار کرنے میں
مصروف عمل تھی تو جمہوری قوتوں نے پارلیمنٹ کے کردار کو مضبوط بنانے کیلئے ایم
اقدامات کئے ہیں جس سے آج ملک میں انتشار اور افراتفری پیدا کرنے والوں کو مکمل
طور پر ناکام بنا دیا گیا ہے اور پاکستان ترقی و خوشحالی کے ایجنڈے پر گامزن ہو
گیا ہے۔
یہ سب کچھ حبیب جالب انکے قبیل کے لوگوں کی قربانیوں کا
ہی نتیجہ ہے اور اس موقع پر حبیب جالب سمیت ان تمام جمہوری قوتوں کی جدوجہد کو
خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ان کی تاریخ کو یاد رکھیں۔

0 Comments