مئی 19، 2024
تحریر: ممتاز ہاشمی
بجلی کے بحران کی وجوہات اور ان کے حل کی تجاویز
پچھلے
چند دنوں سے ملک میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ کو لیکر آزاد کشمیر میں شدید احتجاج ہوا
ہے اور اس کے نتیجے کے طور پر ان کو ان پر ریلیف حاصل ہوا ہے اور اس کو بنیاد بنا
کر ملک میں منفی پراپگنڈہ عروج پر ہے۔ آزاد کشمیر میں جاری احتجاج کی آڑ میں ملک
دشمن عناصر نے اس نازک خطے کو ایک بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی بھرپور کوشش
کی تھی اور اس کے لیے مالی سہولت کاری بھی کی گئی تھی جس کا ثبوت اس مقامی مسئلے
پر بین الاقوامی طور پر احتجاج کرنا تھا۔ اگرچہ حکومت نے اس کو ناکام بنا دیا ہے
مگر اس میں عبوری حکومت کی ناکامی نمایاں
ہے جس نے اس مسئلے کو جو ایک برس قبل سے شروع ہوا تھا اس کے حل پر توجہ نہیں
دی تھی۔
آزاد
کشمیر اور گلگت بلتسان میں عوام کو ریلیف پہنچانے کا اہتمام شروع ہی سے جاری ہے
تاکہ ان پسماندہ علاقوں کے عوام کو کچھ حد تک ریلیف فراہم کرنے کا بندوبست کرنا ہے
اور اس کو ہمیشہ سے ہی بروقت حل کیا جاتا تھا۔ مگر اس مرتبہ عبوری حکومت کی کوتاہی
سے مسئلے سنگین ہو گیا اور آخرکار یہ احتجاج کی شکل میں ظاہر ہوا اور اس کے بعد
حکومت کی جانب سے اس کے حل کے بعد ختم ہو گیا ہے۔
بجلی کے
نرخوں میں اضافے سے پورے ملک میں مہنگائی میں
اضافہ ہوا ہے اوراس مہنگائی کے طوفان نے
نہ صرف غریب آدمی متاثر کیا ہے بلکہ مڈل کلاس میں اس سے شدید متاثر ہو رہی ہے جبکہ
ایلیٹ کلاس اور صنعتی و تجارتی طبقات اس
کو بنیاد بنا کر اپنے منافع میں اضافہ کرتے ہوئے نچلے طبقات کے مسائل میں مزید
اضافہ کر دیتے ہیں ۔
اس پر
مختلف حلقوں کی طرف سے واپڈا اور دیگر ملازمین کو دی جانے والی فری بجلی بند کرنے
کے مطالبات دہرائے جا رہے ہیں یہ دراصل جذباتی نعرے اور حقیقت سے نا آشنائی کی وجہ
سے ہیں
اس بحران
کی وجوہات جاننے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔ تاکہ اس کے بعد اس
کا مستقل حل تلاش کیا جا سکے۔
پاکستان
میں گزشتہ 25 تا 30 سال قبل کی حکومتیں بجلی کی پیداوار میں اضافہ کا خاطر خواہ
انتظامات نہ کرسکیں اس دوران بجلی کے استعمال میں بہت اضافہ ہوتا چلا گیا اور روز
مرہ استعمال کی اشیاء کا استعمال جو بجلی سے چلتی ہیں بڑھ گئی اس کے علاوہ آبادی
کے بے تحاشا اضافہ نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا۔
اس بات
کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ڈکٹیٹر مشرف کے طویل دور حکومت میں
ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ کا عمل مکمل طور پر جامد رہا ۔ حالانکہ اس عرصے میں کھربوں ڈالرز غیر ممالک میں مقیم
پاکستانیوں نے پاکستان منتقل کئے جس کی وجوہات 9/11 کے بعد دنیا میں رونما ہونے
والے سیاسی حالات کا دخل بھی تھا اس کے علاوہ افغان جنگ میں راہداری فراہم کرنے کے
عوض بھی کھربوں ڈالرز اور مراعات پاکستان نے حاصل کئے مگر ان حکمرانوں میں ملکی
مفاد کے لئے سوچنے کی صلاحیت موجود نہیں تھیں ورنہ اس کے عوض وہ تمام قرضوں کی
معافی اور ملک میں بجلی کی فراہمی کے منصوبوں
کے لئے اچھا پیکج لینے کی پوزیشن میں تھے۔
اور اس کے نتیجے میں ملک میں طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہو
گیا۔ جس کے نتیجے کے طور پر ملک کی صنعتوں
کو بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان سے ٹیکسٹائل کے ایک بڑے حصے نے
بنگلہ دیش میں اپنی صنعتوں کو قائم کرنے کا آغاز کیا اور وہاں پر سستی افرادی قوت
نے ان کے کاروباری منافع میں اضافہ کیا اگرچہ بنگلہ دیش میں کپاس کی کوئی پیداوار
نہیں ہوتی اور سارا خام مال درآمد کیا جاتا ہے اس کے باوجود وہاں پر ٹیکسٹائل
انڈسٹری نے بہت ترقی کی۔ جس کا واحد ذریعہ ان پاکسانی صنعت کار ہیں جو اپنے منافع کی
خاطر ملک کو چھوڑ کر بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں سرمایہ کاری کر کے اس کو
آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔
اس بحران
کو قابو کرنے کے لیے حکومتوں نے بجلی کے نئے منصوبوں کیلئے دنیا بھر سے مذاکرات
کیے اور کیونکہ حکومتی وسائل اس قابل نہیں تھے جس کی بناء پر بیرونی سرمایہ کاروں
کی سخت شرائط پر بجلی کے پلانٹس کے معاہدے کئے گئے تاکہ فوری طور پر ملک میں بجلی
کی لوڈشیڈنگ میں کمی کا بندوبست کیا جا سکے۔ ان معاہدوں پر
عملدرآمد کے نتیجے سے ملک میں لوڈشیڈنگ کے
عذاب سے نجات حاصل ہوئی۔ ظاہر ہے کہ ان معاہدوں میں انوسٹمیرز نے اپنے مفادات کا
زیادہ سے زیادہ خیال رکھا گیا تھا اور ان
کی سرمایہ کاری اور منافع کومکمل تحفظ فراہم کیا گیا تھا کیونکہ اس کے علاوہ کوئی
چارہ نہیں تھا اسطرح سسٹم میں 12 ہزار سے زائد کلو واٹس کا اضافہ ہوا جس نے ایک
بہت بڑے مسئلے کو حل کر دیا۔
ان
معاہدوں میں کیپسٹی پیمنٹ اور فیول چارجز کی ایڈجسٹمنٹ وغیرہ شامل تھے۔ ان بجلی کے
پلانٹس اور دیگر پلانٹس سے بجلی کی تقسیم اور فراہمی کے لئے حکومت نے واپڈا کی
بجائے مختلف ڈسٹریبیوشن کمپنیاں قائم کی جن کی بنیاد صوبائی اور شہری کی بنیاد پر
کی گئی تھی اس کا مقصد واپڈا سے مرکزی ڈسٹریبیوشن کی مختلف کمپنیوں کے سپرد کر کے
اس میں بہتری لانا تھی۔
مگر یہ
نظام کارآمد ثابت نہیں ہوا اور بجلی کی چوری میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا اور اسطرح حکومت کا گردشی
قرضہ بڑھنے لگا جس کو بجٹ سے پورا کرنا ناممکن ہے اسطرح سے بیرونی قرضوں میں ہر
آنے والے دنوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو آج 3 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے
اور اب آئی ایم ایف اور دیگر ممالک اور ادارے قرضوں کی فراہمی میں اس بات کی ضمانت
چاہتے ہیں کہ اس گردشی قرضوں کو ختم کیا جائے اور بجلی کی پیداواری لاگت کو پورا
پورا وصول کیا جائے۔
دوسری
طرف ان کی پیداوار آئل اور ڈیزل جیسے فیول سے وابستہ ہے اور گزشتہ سالوں سے ان کی
قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ نے بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے میں اہم کردار
ادا کیا ہے اس کے برعکس گیس نہایت کم قیمت پر کھاد بنانے والے کارخانوں کو دی جا
رہی ہے اگر یہی گیس ان بجلی گھروں کو دی جانے تو بھی پیداواری لاگت میں کچھ حد تک
کمی کی جا سکتی ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کے بعد ضرورت اس بات کی تھی
کہ ملک میں صنعتی ترقی کے منصوبوں پر کام کرتے ہوئے ملک میں درآمدات میں اضافے کے
لیے سنجیدگی سے کام کیا جاتا تاکہ زرمبادلہ
کی کمی کو پورا کرتے ہوئے ان کے منفی اثرات سے محفوظ کیا جائے۔ جس کے لیے چائنا سے
سی پیک کے طویل اور تاریخی معاہدے کے گئے اور ان منصوبوں پر کام شروع کرنے کا عمل
آگے بڑھانے کا اہتمام کیا گیا تھا گیا مگر اس کو اہم ترین ملکی ترقی کے منصوبوں کو
عمران خان کی احتجاجی تحریک نے 14
ماہ تک روکے رکھا جس کا نقصان آج بھی برداشت کر رہے ہیں مزید عمران خان کے دور
اقتدار میں سی پیک آگے بڑھانے کے بجائے اس کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا اس کے
علاوہ ملک میں صنعتی ترقی کا کوئی سنجیدہ منصوبہ شروع نہیں کیا گیا ان تمام واقعات نے ملکی معیشت پر انتہائی منفی
اثرات مرتب ہوئے ۔
دوسری
طرف بجلی کی فراہمی خاطر خواہ اضافہ کے بعد
مفاد پرست عناصر نے ہمیشہ کی طرح
اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی چوری میں ملوث ہو گئے۔ اور اب یہ
چوری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس کی وجہ سے
بجلی کا گردشی قرضہ تقریباً 3 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے اسلئے اس کو کوئی بھی
حکومت اپنے وسائل سے پورا کرنے سے قاصر ہے اس کا کچھ حصہ حکومتی وسائل سے ہر سال
ادا کیا جاتا ہے مگر یہ ہر سال بڑھت جاتا ہے اور آی ایم ایف سے مذاکرات میں یہ بات
شامل ہے کہ اسکو ختم کیا جائے اسلئے اس کو صرف بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور چوری
کو روکنے سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بجلی چوری میں اہم
کرداروں کون ہیں؟
یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ بجلی کی چوری میں
زیادہ تر بڑے تاجر، صنعت کاروں اور
اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس کے طبقات ملوث ہیں جبکہ غریب عوام کا اس میں حصہ بہت کم
ہے۔
پاکستان
میں بجلی کے یکساں نرخوں کے نفاذ کی پالیسی سے بہت سے مسائل کھڑے کئے ہیں اور جو
لوگ اس چوری میں ملوث نہیں ہیں ان کو اس بجلی چوری کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جو کہ
عدل کے اصولوں کے قطعی خلاف ہے۔
کیونکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو مختلف
صوبوں اور علاقوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اسلئے بجلی کے یکساں نرخوں کا اطلاق
غیر فطری ہے۔ بجلی چوری کو روکنے اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے سب سے اہم قدم
ان تقسیم کار کمپنیوں کی مرکزی حیثیت کو ختم کر کے ان کو صوبوں کے تحت کر دینا
چاہیے تاکہ صوبائی حکومتوں کو اس چوری کو
روکنے اور عوام کو مناسب نرخوں پر بجلی کی فراہمی کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔
اس سلسلے
میں تقسیم کے نظام کو مزید ڈویژن، ضلع اور تحصیل کی سطح پر مانیٹر کیا جائے اور
جن جگہوں میں چوری زیادہ ہو وہاں کے لوگوں
کو اسی حساب سے ادائیگی کرنی پڑے۔ یا
لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے۔
اس کے
علاوہ صنعتی زونز میں مختلف مانیٹرنگ کا نظام نافذ کیا جائے جو ان کی پیداواری
صلاحیت اور اس میں استعمال ہونے والی بجلی کی بنیاد پر ہو اور اسطرح سے صنعتی زونز
میں بجلی کی چوری پر قابو پایا جا سکے۔ کمرشل اور تجارتی مراکز میں بجلی کی چوری
کو روکنے کے لیے سب میٹرز کا نظام نافذ کیا جائے اور ان مارکیٹوں اور تجارتی مراکز
کے ذمہ داروں پر بجلی کی سپلائی اور بلنگ میں ذمہ داری دی جائے تاکہ وہ ان کمرشل
اور تجارتی مراکز میں بجلی کی چوری کو روکنے کا اہتمام کر سکیں۔
ایلیٹ
اور اپر مڈل کلاس کے رہائشی علاقوں میں ہر انفرادی گھر میں نصب ایر کنڈیشنز کی
بنیاد پر بلنگ کا ایک پیمانہ قائم کیا جائے۔
اگر ان
تجاویز پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے تو ملک میں بجلی کے نرخوں میں بہت زیادہ
کمی واقع ہو سکتی ہے اور دوسری طرف حکومتی وسائل بھی اس چوری کو پورا کرنے میں صرف
ہونے سے بچ جائیں گے جو دوسری ترقیاتی کاموں پر خرچ کئے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ
سال 2022-2023 میں تقریباً 380 ارب کی
بجلی چوری کی گئی ہے جو آئندہ سال مزید
بڑھ جائے گی اگر یہ سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے۔
اب ان
بجلی کے نرخوں میں اضافہ پر احتجاج اور اس کے پس پشت عزائم پر نظر ڈالنے کی ضرورت
ہے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس احتجاج میں وہ لوگ زیادہ سرگرم اور پیش پیش ہیں جو
ان بجلی کی بڑی چوری میں ملوث ہیں یعنی تجارتی،
کمرشل اور صنعتی طبقات اور ایلیٹ،
سپر کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد۔ ان کے احتجاج کا مرکز صرف نرخوں میں اضافہ کو واپس لینے اور واپڈا اور
دیگر حکومتی اداروں کے افراد کو مفت بجلی کی فراہمی سے روکنا ہے یہ درحقیقت اصل
مسئلہ سے توجہ ہٹانے اور بجلی چوری کو جاری رکھنے کی کوشش ہے۔
ایک اہم
بات جو بجلی کے بے تحاشا استعمال پر گرفت کرنے کا ہے اس سلسلے میں قدرتی روشنی سے
زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت
ہے واضح رہے کہ بجلی کی کسی بھی طرح سے پیداوار اور اس کا استعمال دونوں ماحولیاتی
آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اس لئے اس کے لیے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے
میڈیا کو استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک اہم
سوال جس کا پہت شدت سے پراپگنڈہ کیا جا رہا ہے وہ بجلی کے نرخوں میں مختلف ٹیکسز
اور دیگر کی شمولیت سے متعلق ہے سوشل میڈیا پر مسلسل جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ بجلی
کی لاگت کے بعد مختلف طریقوں سے غیر
قانونی رقوم وصول کی جا رہی ہیں۔ بجلی کا بل بنیادی طور پر دو چیزوں پر مشتمل ہوتا
ہے پہلا اس کی پیداواری لاگت اور دوسری اس کی تقسیم یا ڈسٹریبیوشن کے اخراجات۔
پوری دنیا میں یہی نظام نافذ ہے اور ان دونوں کو جمع کر کے اس پر سیلز ٹیکس لگایا
جاتا ہے اسطرح سے بجلی کا بل ان تینوں کا مجموعہ ہوتا ہے ظاہر ہے کہ پیداواری لاگت
میں اور ڈسٹریبیوشن کے اخراجات میں اضافے
ایک مسلسل عمل ہے اور اس کا ایک قابل عمل لائحہ عمل اسی وقت ترتیب دیا جا سکتا ہے
جب بجلی کی چوری پر قابو پانے میں کامیابی ہو گئی۔
ایک چیز
جو قابل ذکر وہ انکم ٹیکس ہےجو بجلی کے بلز میں شامل کیا
جاتا ہے جو کہ اگرچہ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ میں شامل کیا جاتا ہے مگر اس کو اس میں شامل
کرنے کی ضرورت نہیں ہے حکومتی اداروں نے یہ اسلئے شامل کیا تھا کہ وہ لوگ جو
لاکھوں روپے کی بجلی استعمال کرتے ہیں اور نان فایلرز ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں شامل
کیا جا سکے مگر یہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن کے مزید مواقع فراہم کرنے کا
باعث بن رہا ہے اسلئے اس کو بجلی کے بلز میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے
اداروں کو نان فایلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوئی مضبوط اور قابل عمل لائحہ
عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
یہ بات
قابل توجہ ہے کہ جب ان پرائیویٹ سیکٹر کے پاورز پلانٹس سے کئے گئے معاہدے کی مدت
مکمل ہو جائے تو ان سے نئے معاہدے کرتے ہوئے ملکی معاشی صورتحال انتہائی اہم کردار
ادا کرے گی اسلئے ملک کو انتشار اور لاقانونیت سے نجات دلا کر ایک مکمل پرامن ماحول میں معاشی
ترقی کی جانب پیش قدمی لازمی ہے۔
جہاں تک
واپڈا اور دیگر حکومتی اداروں کے افراد کو مفت بجلی کی فراہمی ہے تو اس سلسلے میں
ایک بات قابل غور ہے کہ یہ سب ایک تخمینہ کے مطابق 34 کروڑ یونٹس سالانہ بجلی
استعمال کرتے ہیں اگر ان کی یہ سہولت ختم بھی کر دی جائے تو زیادہ سے زیادہ 15 تا
20 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے جو کہ بجلی چوری کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر
ہے۔ دوسرے ان تمام افراد اور اداروں کو مفت بجلی ایک ایگریمنٹ کے تحت دی جاتی ہے
جو کہ ان کی تنخواہیں اور مراعات کا حصہ ہیں اور ان کو یہ سہولتیں ختم کرنا خلاف
قانون ہو گا تاوقتیکہ اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کی جائے سکے۔ لیکن قابل ذکر
بات یہ ہے کہ صرف بجلی ہی نہیں دیگر اداروں کے ملازمین بھی ان اداروں سے منسلک سہولتیں
مفت استعمال کرتے ہیں جن میں پی آئی اے،
ریلوے، گیس وغیرہ وغیرہ شامل ہیں
اور یہ سب ادارے بھی خسارے میں جانے رہے ہیں اسلئے ان سب کے معاملات پر سنجیدگی سے
غور کرنے اور مناسب لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
مگر ایک
اہم مراعات جو کہ اکثر سرکاری، نیم
سرکاری، عدلیہ، افواج،
کارپوریشنز، میونسپلٹیز وغیرہ سے
وابستہ افراد حاصل کر رہے ہیں اس کو روکنے کی اشد ضرورت ہے اور وہ ہے ان افراد کو
پلاٹوں کی الاٹمنٹ جو براے نام قیمت پر دیے جاتے ہیں اور ان کی مالیت لاکھوں اور
کروڑوں میں ہوتی ہے اس سے ملکی خزانے کو بہت نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور یہ کام
عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے۔ اس پر ایک نئی پالیسی ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے
تاکہ ملک وسائل کے اسطرح کے بوجھ سے نجات دلائی جائے سکے۔
اس سلسلے
میں جن افراد کے پاس ایک سے زائد پلاٹ ہوں تو ان سے ایک زائد پلاٹ جو حکومتی وسائل
سے ملیں ہوں وہ حکومت واپس لے کر قومی وسائل میں اضافہ کا سبب بنایا جائے۔ آئندہ
کے لیے ان افراد کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے اور مستحق
ملازمین کے لئے حکومتی سطح پر ایک مناسب درمیانے درجے کی ہاؤسنگ اسکیموں کا اجراء
کیا جائے اور یہ رقم ان ملازمین کی
تنخواہوں سے لی جائے تاکہ انکو ریٹائرڈ ہونے پر
رہائشی سہولت میسر آ سکیں یہ ان کے
رہائشی مسلے کا مناسب آور قابل عمل حل ہے۔
ان تمام
تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک مستحکم اور مضبوط جمہوری حکومت کا قیام
لازمی ہے جو ایک تمام اقدامات کرنے کی جرات ہو اور اس کو کسی ریاستی ادارے کی طرف
سے مداخلت کا کوئی خطرہ نہ ہو اور تمام ادارے اپنے آئینی کردار کو انجام دینے تک
محدود رہیں۔ صرف اسی صورت میں ملک ایک مستحکم اور مضبوط معیشت اور عوام کی فلاح و
بہبود کے ایجنڈے پر گامزن ہو سکتا ہے۔
تحریر:
ممتاز
ہاشمی
0 Comments