Header Ads Widget

عدلیہ کی سیاسی، انتظامی اور اقتصادی امور میں مداخلت کے نتائج دو برس قبل لکھا گیا مضمون ستمبر 27،

 ماضی کے جھروکوں سے 

2022



تحریر: ممتاز ہاشمی  

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری تاریخ میں عدلیہ سے جس معیار کے انصاف اور عدل کی توقع تھی اور جس کے لیے اعلی عدلیہ کو انتہائی مراعات سے نوازا جاتا ہے اس نے پوری نہیں کی اور جس کی بناء پر اج دنیا میں انصاف کی فراہمی میں انتہائی نچلے درجے پر ہے اس عدلیہ نے کبھی بھی آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کیا بلکہ ہر دفعہ ڈکٹیٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کا گھناؤنا کردار ادا کیا ہے اسلئے عوام کا اس عدلیہ پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے اس کا ثبوت گزشتہ دنوں ہونے والے بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس میں دیکھنے کو ملا۔ جب پاکستان کے ایک انتہائی ایماندار جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے تمام حاضرین سے پوچھا کہ جن کو عدلیہ کے کام پر اعتماد ہے وہ اپنا ہاتھ اٹھائیں جس کے جواب میں کسی نے بھی بھی اپنا ہاتھ نہیں اٹھایا اس سے ہماری عدلیہ کی اہلیت اور حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بنیادی وجہ اس عدلیہ پر بداعتمادی اور عدم اعتماد کی یہ ہے کہ اس کا جو اصل مقصد لوگوں کو آئین اور قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی ہے وہ اس پر عمل درآمد کرنے سے قاصر رہی ہے اور اپنا اکثر وقت غیر ضروری امور جن میں سیاسی، اقتصادی اور انتظامی معاملات شامل ہیں ان میں اپنے آپ کو غیر قانونی طور پر ملوث کرتیں رہیں ہیں 
 اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اج کے فیصلے میں جس میں شیخ رشید کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز اور متعلقہ فورم میں حل کریں اور کورٹ کو صرف قانونی معاملات تک محدود رہنے دیا جائے اور ایسے سیاسی معاملات کے لیے کورٹ سے رجوع کرنے پر شیخ رشید کو تنبیہ بھی کی ہے یہ ایک اچھی مثال ہے اور اس رحجان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور دیگر اعلی عدلیہ اور سپریم کورٹ کو بھی اس بات پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ وہ عوام کو آئین اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنے تک اپنے آپ کو وقف کر دیں اور غیر ضروری طور پر سیاسی، اقتصادی اور انتظامی امور میں مداخلت سے گریز کریں تاکہ ریاستی امور کو آئین و قوانین کے مطابق چلایا جا سکے اور ملک میں جمہوری قوتوں کو توانائی مہیا ہو سکے اور وہ اپنی توانائیاں عوام کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کریں ۔
 مگر کل ہی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے جس میں عدلیہ نے غیر قانونی طور پر بلدیہ کراچی کو اپنے ٹیکس کسی دوسری ایجنسی کے ذریعے وصول کرنے سے روک دیا ہے قانون کے مطابق بلدیاتی ٹیکس کو ٹھرڈ پارٹی کے ذریعے وصول کرنے کی اجازت ہے اور اس طرح سے بلدیہ اپنے واجبات وقت پر وصول کر کے بلدیاتی سہولیات فراہم کر سکتا ہے ان واجبات کی عدم وصولی عوام کے مسائل کے حل میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں جماعت اسلامی نے صرف اپنے ذاتی تشہیری ایجنڈے کے لیے عدلیہ سے اس کو روکنے کے لیے رجوع کیا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ ہائی کورٹ بھی اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انتظامی امور میں مداخلت سے گریز کرنے کا حکم جاری کرتی مگر بدقسمتی سے عدلیہ اپنے آپ کو قانونی امور کے علاوہ ہر معاملے میں ملوث کر کے ایک انتہائی خطرناک بحران پیدا کرنے میں مصروف ہے
اسلئے آج اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے دائرہ اختیار کے بارے میں واضح قانون سازی کی جائے اور اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر نظرثانی اور اس میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے

Post a Comment

0 Comments