Header Ads Widget

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کے فیصلے پر نظرثانی

 


ستمبر 30، 2024


تحریر: ممتاز ہاشمی

آج دو برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد جب اس متنازعہ فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی اپیل  سماعت مقرر ہوہی تو اس متنازعہ اکثریتی فیصلہ لکھنے والے جج منیب اختر نے اس بنچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور یوں اس نے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔
دراصل جب یہ فیصلہ دیا گیا تھا تو اکثر سیاسی اور قانونی حلقوں نے اس اکثریتی فیصلے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کو آئین کو تخلیق کرنے سے تعبیر کیا تھا جس کا سپریم کورٹ کو کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں ہے۔
اس کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں دائر کی گئی تھیں مگر ان کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا کیونکہ بندیالی کورٹ کے من پسند ججز نے جسطری سے آئین شکنی کی تھی اس کو کسی طرح سے بھی تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے عہدے پر براجمان ہونے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت پرانے کیسز کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں کامیابیاں حاصل کیں کیونکہ اس میں دوسرے ممبر جسٹس منصور علی خان نے ان کا ساتھ دیا۔
مگر کچھ عرصے بعد جسٹس منصور نے اپنا قبلہ بدل لیا اور وہ بھی بندیالی فلسفے کو کمیٹی کے دوسرے بندیالی ممبر کے ساتھ ملکر پروان چڑھانے لگے اور اسطرح سے چیف جسٹس کی حیثیت کو بیکار بنانے میں استعمال ہونے لگے اور اسطرح سے یہ اپیل اور دیگر پرانے کیسز کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جاسکا۔
اسطرح سے ملک میں آئینی بحران کو پروان چڑھانے میں مصروف ہو گئے۔
اس صورتحال میں حکومت کے پاس واحد راستہ ایکٹ میں ترمیم کر کے چیف جسٹس کے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا جو اس نے کر  دیا اور اسطرح سے اس کمیٹی کی تشکیل نو کر دی گئی اور اس کمیٹی نے اس طویل عرصے سے ذیر التوا نظرثانی کی اپیل خو سماعت کے لیے مقرر کر دیا اور بنچ کی تشکیل انصاف کے تقاضوں کے مطابق کی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جسٹس منصور اور منیب  نے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی انتہائی کوشش کی ہیں
اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ عدلیہ جو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ فراہم کرنے کے گھناؤنے جرائم میں ملوث رہی ہے اور اسطرح سے ملک میں جمہوری نظام کو پنپنے میں رکاوٹ ڈالتی رہی ہے جس کے نتیجے کے طور پر استحصالی طبقات نے ملی وسائل پر قابض ہوتے چلے گئے اور ملک و عوام کو مشکلات میں مبتلا کرتے چلے گئے اور آخرکار جب ملک تباہی و بربادی کے دھانے پر پہنچا دیا گیا تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا اور اب وہ پوری تندہی سے سول حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہی ہے مگر اس سے ان تمام استحصالی طبقات جن میں عدلیہ، سابقہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ،  سول بیوروکریسی،  تاجر،  بزنس کمیونٹی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اس کو ناکام بنانے کیلئے گھناؤنا کردار ادا کر رہے ہیں تاکہ دوبارہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث کرنے پر مجبور کر دیا جائے اور دوبارہ سے اپنے استحصالی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کا اہتمام کیا جا سکے۔

 مگر امید ہے کہ آئندہ دنوں میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نہیں تشکیل کردہ کمیٹی کی ہدایات پر اس کیس کی سماعت مکمل کرکے اس پر فیصلہ سنا دیں گے اور اسطرح سے دو برس سے قبل عدلیہ کی طرف سے پیدا کئے گئے اس آئینی بحران کو حل کر لیا جائے گا۔
اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کی رحمت سے ان تمام سازشی عناصر کو شکست فاش ہو گی۔
اس موقع پر وہ مضامین جو میں نے اس فیصلے کے آنے کے بعد  لکھے تھے ان کو پیش کر رہا ہوں تاکہ قارئین کو کیس کے حقائق دوبارہ سے ذہن نشین ہو جائیں۔

تحریر:

ممتاز ہاشمی

-----------‐------------------------------------------------------------
مئی 17، 2022

تحریر: ممتاز ہاشمی

سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ اور اس کے اثرات

 آرٹیکل 63 اے کے اثرات کے تعین اور کے اثرات کے تعین کے لیے صدارتی ریفرنس صدر نے حکومت کی جانب سے دائر کیا تھا۔ اس کے بعد آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ایک اور پٹیشن دائر کی گئی۔ سپریم کورٹ نے دونوں درخواستوں کو یکجا کیا اور ان کی ایک ساتھ سماعت کی۔ اس لیے آج کے فیصلے پر آرٹیکل 184 (3) کے تحت نظرثانی کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان بھی اس موضوع کے مقدمے میں فریق ہے اور وہ آج کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر سکتی ہے۔
• جب اس کیس کی سماعت کے لیے بنچ تشکیل دیا گیا تو اس درخواست کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا فل بنچ یا سینئر ترین ججوں کا بنچ تشکیل دینے کی درخواست تھی جس میں اہم آئینی مسائل اٹھائے گئے تھے۔ لیکن چیف جسٹس نے اسے مسترد کر دیا اور اسی بنچ نے اس اہم کیس کی سماعت کی۔
• آج کے فیصلے میں کچھ خدشات ہیں۔ یہ 2 سے 3 تقسیم شدہ فیصلہ ہے اور اس کے نفاذ پر سوال اٹھاتا ہے۔
 فیصلہ آرٹیکل 63 اے کو 17 کے ساتھ
 منسلک کرکے ریفرنس کے اپنے دائرہ کاراختیار سے تجاوز کرتا ہے۔
 یہ بہت واضح ہے کہ آرٹیکل 63اے پر اٹھائے گئے مسائل پر بہت واضح ہے۔ اگر منحرف اراکین کو ووٹ دینے کی اجازت نہ دے کر لاگو نہیں ہوتا ہے، تو آئین میں آرٹیکل 63اے کی موجود ہونے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا

• 2 ججوں کا اکثریتی فیصلہ بہت اہم ہے اور آئین کی روح کے مطابق ہے۔
مزید برآں، اگر اکثریتی فیصلہ قبول کر لیا جاتا ہے تو اس سے مستقبل میں تحریک عدم اعتماد کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
امید ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنز نظرثانی کی درخواست دائر کریں گی اور آئین کے اہم مسائل پر فیصلہ سنانے کے لیے فل کورٹ نظرثانی کریں گی۔

تحریر:

ممتاز ہاشمی

‐-----------------------------------------------------------------------

 1 جولائی، 2022

تحریر: ممتاز ہاشمی

سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ

وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب سے متعلق سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ آئین و قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس سے عدلیہ کی اہلیت پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ جو آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور اپنے حلف کی پاسداری کے پابند ہیں۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے میرٹ اور آئین پر فیصلہ کرنے کی بجائے صرف سیاسی جماعتوں میں ثالث کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو آئین کے تقاضوں پر عمل کرنے کی واضح ہدایات دینے کے بجائے اپنے من پسند فیصلے سے اتفاق کرنے کا اعلان کیا۔
یہ عجیب بات ہے کہ ایسے اہم آئینی مقدمات کی سماعت ہمیشہ ججوں کی ایک مخصوص ذہنیت سے ہوتی ہے۔ غیر جانبدار اور سینئر ججوں کی اکثریت کو ان اہم آئینی مقدمات سے ہمیشہ دور رکھا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی وضاحت سے متعلق صدارتی ریفرنس پر انتہائی متنازعہ فیصلہ سنایا ہے۔ فیصلہ 3-2 کی اکثریت سے ہوا۔ اس ریفرنس میں 2 ججز نے اکثریتی فیصلے کو آئین کی ازسرنو تحریر قرار دیا جو عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ سپریم کورٹ بار کے اکثریتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست ابھی زیر التوا ہے اور اس کی سماعت نہیں ہو رہی ہے۔ ملک کو آئین کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فل کورٹ اس متنازعہ فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرے۔
 تمام مسائل کا تعلق مذکورہ بالا متنازعہ اکثریتی فیصلے سے ہے اور آئندہ کسی بھی کارروائی کے لیے ان کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
تحریر:
ممتاز ہاشمی

-----------------------------------------------------------------------
جولائی 22، 2022

تحریر : ممتاز ہاشمی

پنجاب کے چیف منسٹر کے انتخاب کا قانونی اور آئینی جائزہ

 

آج پنجاب کے چیف منسٹر کے ہونے والے انتخابات پر ہو قسم کے تبصرے کئے جا رہے ہیں اور ان میں زیادہ تر لوگوں کے تبصرے قانونی اور آئینی تقاضوں کو بغیر سمجھے کئے جا رہے ہیں اسلئے اس کو سمجھنے کے لیے حالیہ تاریخ میں عدلیہ میں دائر  صدارتی 63 اے   اور اس پر ہونے والے فیصلے کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے
اس اہم آئینی مسلے پر دائر ریفرنس کی سماعت کے لیے جو بنچ تشکیل دیا گیا تھا اس پر اسی دن سے سوال اٹھایا گیا تھا اور اس اہم کیس میں سینیر ترین ججوں کی عدم موجودگی نے پہلے دن سے اس کی شفافیت پر سوال پیدا کردیے تھے

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایسے اہم آئینی مقدمات کی سماعت ہمیشہ  مخصوص اور جونیئر ججوں کے  ذریعے ہوتی ہے۔ غیر جانبدار اور سینئر ججوں کی اکثریت ان اہم آئینی مقدمات سے ہمیشہ دور رکھا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قسم کے اہم آئینی اور سیاسی مقدمات کو سپریم کورٹ کا فل بنچ جو تمام ججوں پر مشتمل ہوتا تاکہ اس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
غور طلب ہے کہ پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی وضاحت کے صدارتی ریفرنس پر انتہائی متنازعہ فیصلہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ 3 سے 2 کی اکثریت کا فیصلہ تھا۔ اس ریفرنس میں 2 ججوں نے اکثریتی فیصلے کو آئین کی ازسرنو تحریر قرار دیا، جو عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ سپریم کورٹ بار کی اکثریتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست ابھی زیر التوا ہے اور اس کی سماعت نہیں ہو رہی۔ یہ ضروری ہے کہ ملک کو آئین کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فل کورٹ اس متنازعہ فیصلے پر دائر کی  گئی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرے

اسی طرح صدارتی ریفرنس پر مختصر فیصلے کا اج تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے جج نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے اکثریتی فیصلہ کو آئین کی روح کے خلاف قرار دیا ہے اور اس کے تفصیلی فیصلے کو جاری نہ کرنے پر سوالات اٹھائے ہیں اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کو بھی ابھی تک نہیں سنا گیا ہے
  یہ انتہائی اہم کیس ہے کیونکہ اس کے فیصلے کا انحصار پنجاب میں دوبارہ سے چیف منسٹر کے انتخابات پر بھی ہے۔ کیونکہ آئین کی روح سے منحرف اراکین کے ووٹوں کو شمار نہ کرنا آئین میں ترمیم کرنا ہے جس کا سپریم کورٹ کو کوئی اختیار نہیں ہے۔
آج پنجاب کے چیف منسٹر کے دوبارہ انتخاب میں ڈپٹی سپیکر نے اس فیصلے کا اطلاق کرتے ہوئے منحرف اراکین کے ووٹوں کو گنتی میں شامل نہیں کیا جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے عین مطابق ہے
اسلے آج کے انتخاب کو اسی فیصلے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے
اس بات کی انتہائی ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی فوری سماعت کرے اور اس کے لیے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے۔
 تمام مسائل کا تعلق مذکورہ متنازعہ اکثریتی فیصلے سے ہے
یہ بات اہم ہے کہ اگر سپریم کورٹ اپنے پرانے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کی تشریح آئین کے مطابق کرتی ہے تا اس صورت میں آج ہونے والے دوبارہ انتخاب کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اور منحرف اراکین کے ووٹوں سے پہلے سے منتخب وزیر اعلی ہی مستقل وزیر اعلی کہلائے گا اور اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے کو برقرار دکھتی ہے تو آج کی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ عین آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

تحریر :
ممتاز ہاشمی 


Post a Comment

0 Comments