اگست 29، 2024
کل پاکستان بھر میں تاجروں نے مکمل ہڑتال کی جس کا مقصد انکم ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو دباؤ میں لانا تھا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ یہ پاکستان کے سب سے بڑے مافیاز میں سے ہے اور قیام پاکستان سے لیکر آجتک ہمیشہ انکم ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے میں کامیاب رہے ہیں ۔
ہر سیاسی و ملٹری ڈکٹیٹروں کی حکومتیں اس مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہی ہیں جس کی وجہ ان کے بے پناہ وسائل ان اور ان کا تمام حلقوں میں اثر و رسوخ کا استعمال ہے۔
ام کے اس غیر قانونی عمل عمل سے پاکستان کی معاشی حالت خراب سے خراب ہوتی چلی جاتی رہی ہے جس سے عوام کی اکثریت کے مسائل میں شدید اضافہ ہوتا چلا گیا اور مہنگائی سے غریب عوام کے مسائل ہر آنے والے دور میں بڑھتے ہی گئے ہیں۔ اس کے برعکس اشرافیہ ملک کے وسائل پر مکمل قابض ہوتی گئی اور ان کے شاہانہ طرز زندگی پاکستان کے عوام کی بدحالی کا واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
اس واضح طبقاتی تفریق نے ملک میں انتشار اور افراتفری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ ان استحصالی طبقات کی کرپشن کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاست کے وسائل محدود ہوتے گئے اور ضروریات کو پوری کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب انتہائی کم تر ہے جو کہ 8.5 ہے جو اس علاقے کی اوسط 19.8 کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے۔ اسلئے ملکی نظام چلانے کے لیے قرضوں کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس وقت ملک بھر میں 32 لاکھ کے قریب تاجر موجود ہیں جو اپنی آمدنی پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ان کی آمدنی لاکھوں سے اربوں تک سالانہ ہے۔
اگرچہ ان تاجروں میں چھوٹے، بڑے پرچون و ہول سیل مارکیٹوں کے تمام تاجروں شامل ہیں مگر ان میں سے چھوٹے پرچون فروشوں کی اکثریت اس ٹیکس نیٹ میں نہیں آئے گی کیونکہ ان کی آمدنی اس کم از کم آمدن سے کم ہی ہوتی ہے جن پر انکم ٹیکس کا نفاذ نہیں ہوتا۔
اس کا اندازہ ملک بھر کے صرف بڑے شہروں کی بڑی کمرشل اور ہول سیل مارکیٹوں کے سروے سے ہی لگایا جاسکتا ہے جہاں پر دوکانوں اور گوداموں کی قیمت و کرائے لاکھوں سے کروڑوں روپوں میں ہیں مگر یہ مافیا ایک روپے کا بھی آمدنی پرٹیکس نہیں دیتا۔
اسطرح سے تمام ٹیکسز کا بوجھ تنخواہ دار اور نچلے و درمیانے طبقات پر منتقل ہو جاتا ہے۔
اسطرح سے ملکی وسائل سکڑنے چلے جاتے ہیں اور ملک پر قرضوں کا بوجھ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔
ان تاجروں کا زیادہ تر کاروبار کیشن میں ہوتا ہے نتیجتاً ملک میں غیر دستاویزی معیشت کا غلبہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اور یہ غیر قانونی دولت کا جس پر آیخ طرف تو ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہے اور دوسرا اس کا استعمال ملکی معیشت میں کوئی فعال کردار ادا نہیں رہا بلکہ یہ صرف غیر پیداواری ذرائع یعنی رہیل اسٹیٹ میں ہی لگایا جاتا رہا ہے جس نے ایک اور اہم مسئلہ رہائش کو مزید مشکل بنانے میں ایم کردار ادا کیا ہے اور اس کی وجہ سے مکانات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کا سبب بن گیا ہے اور اب عام آدمی اپنے لیے ذاتی رہائش کا بندوبست کرنے سے معذور ہے لیے۔
اس دوران وقفے وقفے سے اس کالے دھن کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجراء کیا جاتا رہا ل تاکہ ملکی دولت لوٹنے والے ان استحصالی طبقات کی غبر قانونی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
آج جب ملکی معیشت انتہائی شدید بحران کا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں ان تاجروں سے ٹیکس کی عدم وصولی ایک اہم جزو ہے۔
اسوقت حکومت نے صرف چند بڑے شہروں میں ہی ان تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ان کو کم از کم ٹیکس ادا کرنے کے کچھ اقدامات کئے ہیں مگر یہ مافیا اور اشرافیہ یہ معمولی ٹیکس ادا کرنے سے بھی انکاری ہے اور اس نے حکومت کو ان اقدامات سے پیچھے ہٹنے کے لیے ہڑتال کی ہے
اس میں سب سے زیادہ گندا اور عوام دشمن کردار جماعت اسلامی کا ہے جس نے اس ہڑتال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کا کریڈٹ بھی لیا۔ ان کو ان مافیا کے ساتھ کھڑے ہو کر عوامی حقوق کی پامالی میں شریک ہو کر اللہ کا خوف بھی نہیں آتا۔
بہرحال ابھی تک حکومت نے اس ہڑتال کا کوئی اثر نہیں لیا ہے اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے کئے گئے اقدامات کو واپس لینے سے انکار کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف اس مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا علم تیزی سے مکمل کیا جائے بلکہ اس کے بعد دیگر چھوٹے شہروں کی تاجروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایک لائحہ عمل ترتیب دیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ تنخواہ دار طبقات اپنی تمام آمدنی پر ہی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ ان تاجروں کے پاس اپنے مختلف اخراجات کو آمدن سے منفی کرنے کی سہولت حاصل ہے اور ان کو یہ بغیر کسی تحقیق یا دستاویزی ثبوت کے کرنے کی سہولت تک حاصل ہے اسطرح سے ان سے ٹیکس کلیکشن ان کی آمدن کا صرف ایک نہایت معمولی حصہ ہی ہو گا۔
مگر یہ ملکی آمدن کا ایک بہت بڑا حصہ بن سکتا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف اوقات میں حکمتوں نے تاجروں اور دیگر طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی مگر ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اب اگرچہ حکومت نے کچھ ٹھوس اقدامات اس سلسلے میں شروع کئے ہیں مگر ان کی کامیابی کے لیے بہت سخت محنت اور عزم کی ضرورت ئو گی۔
دنیا بھر میں کسی بھی شخص کو کوئی حکومتی سہولیات حاصل کرنے کے لیے ٹیکس ریٹرن فائل کرنا لازم ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اس کو مختلف رعایتیں فراہم کی جاتی ہے حتیٰ کہ طلباء کے لیے تعلیمی قرضوں کے حصول کے لیے بھی ٹیکس ریٹرن فائل کرنا لازم ہوتا ہے۔
اسلئے اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے جس سے ہر بالغ کے لیے ٹیکس ریٹرن فائل کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ اس کے لیے ہر شخص کو اس کا انفرادی قومی شناختی کارڈ کو ہی اس کا ٹیکس نمبر قرار دے دیا جائے اور ٹیکس ریٹرن کے لیے آن لائن آسان اور مختصر سا فارم متعارف کروایا جائے تاکہ عوام بآسانی اپنے ٹیکس ریٹرن فائل کر سکیں۔
اس سے اکثریت کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے گا اور ٹیکس و جی ڈی پی کا تناسب بآسانی دوگنا اور اس سے بھی زیادہ کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے اب عوام اور حکومت کو ملکر اس مافیا کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ یہ ملکی دولت کے ایک بڑے حصے پر بغیر کوئی ٹیکس ادا کئے عرصے دراز سے قابض ہیں اور ان کی اس ناجائز ذرائع آمدن کا بوجھ ملک و غریب طبقات مہنگائی کی شکل میں ہمیشہ سے ادا کر رہے ہیں۔
اگر یہ مزید ہڑتالیں بھی کریں تو اس کا کوئی اثر نہیں لینا ہوگا اور ریاستی اداروں کو مضبوطی سے اس مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے ایجنڈے کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوگا۔صرف اسی طرح ملک اور عوام معاشی بحران سے نکلنے کے راستے پر گامزن ہو سکیں گے۔
0 Comments