Header Ads Widget

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی – پاکستان کے تابناک مستقبل کی نوید . ایک برس قبل لکھا گیا مضمون ستمبر 17، 2023

 ماضی کے جھروکوں سے 



تحریر: ممتاز ہاشمی 


آخرکار تمام ریاستی اور استحصالی طبقات کی سازشوں کو اللہ نے ناکام بنا دیا اور آج قاضی فائز عیسٰی نے پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ یہ ایک تاریخ ساز دن ہے کیونکہ ان سے پاکستان کے عوام اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی قوتوں کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔
ان امیدوں کی وابستگی کی وجہ ان کے ذاتی اور خاندانی پس منظر ہے ان کے والد قاضی عیسٰی قائداعظم کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے اور تحریک پاکستان کے جوان ترین راہنما تھے قائداعظم نے ان کو خاص اہمیت دیتے تھے اور ان کو اہم ذمہ داریاں سونپی تھیں انہوں نے بلوچستان اور سرحد کے پاکستان میں شمولیت اور وہاں پر مسلم لیگ کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور اس سلسلے میں اپنے ذاتی وسائل کو مسلم لیگ کی تحریک پاکستان کے کے مقاصد کے لیے قربان کیا تھا۔
قاضی فائز عیسٰی بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہے ہیں اور اس کی گواہی ان کا بے مثال اور جرات مندانہ کردار ہے جو انہوں نے اپنی تمام زندگی میں ادا کیا ہے۔
90، کی دہائی اور اس کے بعد انہوں نے اپنی قانونی پریکٹس کے دوران اپنے وقت و وسائل کو کراچی میں بلڈرز اینڈ ڈولیپرز مافیاز کے خلاف جدوجہد میں استعمال کیا۔ اور کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اپنے قانونی کردار ادا کی انجام دہی کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ وہ اس اتھارٹی کی اورسیز کمیٹی کے اہم رکن تھے جو گورنمنٹ نے اس ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے قائم کی تھی جس میں تعمیرات سے منسلک اداروں اور پیش ور افراد اور معزز شہری شامل تھے میں نے بحیثیت اس کمیٹی کے کوآرڈینٹر/ ڈپٹی ککوآرڈینٹر ان اور دیگر تمام ممبران کے ساتھ کام کیا ہے وہ وقت کے پابند اور باقاعدگی سے اس کے اجلاس میں شرکت کرتے تھے اور ہمیشہ کمیٹی کی کاروائی کے نوٹس لکھتے تھے اور جب میں کمیٹی کی کاروائی کے منٹس بنایا کرتا تھا تو وہ اکثر اوقات اس میں تصحیح کراتے تھے۔ انہوں نے اس ادارے کے لیے باہر سے وکلاء کے پینل کی منظوری حاصل کی تاکہ ان مافیاز کے خلاف کورٹس میں قابل وکلاء کی خدمات حاصل کی جا سکیں اس کے علاوہ وہ ایم کیسز میں خود رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتے تھے اور اسطرح سے انہوں نے اپنی ذاتی پریکٹس سے وقت نکال کر ان عوامی مفاد کے کاموں کے لئے جدوجہد میں استعمال کیا۔ ان کی اس جدوجہد کی وجہ سے عوام میں ان مافیاز کے خلاف شعور اجاگر ہوا۔
اس مقصد کیلئے کراچی میں ایک بہت مشہور این جی او " شہری " کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور قاضی فائز عیسٰی اس کے بانیوں میں سے تھے اور اس کے چیئرمین بھی رہے تھے اس تنظیم نے کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس جدوجہد میں ان کو جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے مگر انہوں نے اپنی جدوجہد مضبوط عزم کے ساتھ جاری رکھی۔ وکالت میں ان کا شمار قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے، نڈر،بہادر اور انتہائی ایماندار وکلاء میں ہوتا تھا اسلئے اکثر اوقات ہائی کورٹ ان کی خدمات اہم قانونی اور آئینی معاملات پر حاصل کرتا تھا۔
بلوچستان ہائی کورٹ میں تعیناتی کے بعد ان کے اہم فیصلے جن میں سانحہ کوئٹہ اور دیگر آج بھی سب کے سامنے موجود ہیں جن میں انہوں نے حکمتوں اور ایجنسیوں کے کردار کو جس طرح سے بےنقاب کیا ہے اس سے حکمران طبقات اور ایجنسز ہمیشہ سے ان سے خوفزدہ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں تعیناتی کے بعد ان کے بہت سے اہم فیصلے آج بھی عملدرآمد کے منتظر ہیں جس میں سب سے اہم فیض آباد دھرنا کیس ہے جس میں ایجنسز کے اہل کاروں کی غیر آئینی حرکات کو بے نقاب کیا گیا تھا اور ان کے خلاف ان کی غیر آئینی سرگرمیوں پر قانون کے مطابق اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
مگر پچھلی کٹھ پتلی حکومت جو ایجنسز کے سہارے کھڑی تھی اس نے اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی بجائے قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ایک جھوٹ اور دروغ گوئی پر مبنی مہم شروع کر دی تاکہ ان کے فیصلے پر عملدرآمد روکا جا سکے۔
مگر اللہ نے ان تمام افراد، حلقوں اور طبقات کو ذلیل و خوار کر دیا اور قاضی فائز عیسٰی کو سرخرو کیا اور آج قاضی فائز عیسٰی کو اس منصب پر براجمان کر دیا۔ 
یہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کے لیے ایک اچھے مستقبل کی نوید سنائی دے رہا ہے۔
ان کو اگرچہ بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا مگر ان کی عزم، حوصلہ اور جرات کی بناء پر یہ بات یقینی ہے کہ وہ ان تمام چیلنجز کو نمٹنے میں اللہ کی رحمت سے کامیابی حاصل کریں گے۔ 
آج تاریخ کے اہم دوراہے پر ہم کھڑے ہیں آزادی کے بعد ملکی امور پر اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری نے ملک کو معاشی، سیاسی اور اخلاقی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے عوام کی اکثریت شدید مصائب اور تکالیف میں مبتلا ہے مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور دوسری طرف اشرافیہ کی دولت، وسائل پر قبضہ اور عیاشیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
اس بحران سے نمٹنے کیلئے انتہائی بھرپور اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اداروں کو سیاست سے دستبردار کرنے اور انہیں ان کے آئینی کردار تک محدود رکھنے کی اشد ضرورت ہے اگرچہ گزشتہ برس کے احتشام اور نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری کے بعد صورتحال میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے مگر آج بھی ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ، ان کی باقیات، اور وہ تمام طبقات جن میں سول بیوروکریسی، تاجر، بزنس کمیونٹی اور دیگر استحصالی طبقات سرگرم عمل ہیں اور یہ استحصالی طبقات اپنے مالی مفادات کے تحفظ کیلئے پوری قوت سے معاملات کو خراب کرنے میں مصروف ہیں اور ان کی بھرپور کوشش ہے کہ دوبارہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں حصہ لینے پر مجبور کیا جائے اور اسطرح اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
ان قوتوں کو بھرپور تحفظ عدلیہ فراہم کرتی رہی ہے جس کا کردار ہمیشہ سے ہی داغدار رہا ہے حالیہ تاریخ میں ثاقب نثار اینڈ کمپنی اور اس کے بعد آنے والے چیف جسٹسز و دیگر ججز نے عدلیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور آج عوام کا عدلیہ سے اعتماد مکمل طور پر آٹھ گیا ہے 
آج ہم جس بحران سے گزر رہے ہیں اس میں عدلیہ کے غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلوں کا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔ 
اس لیے عدلیہ کے ادارے کے اعتماد بحال کرنے کے ان کو انتہائی جانفشانی سے بھرپور جدوجہد کرنا ہوگی اور بندیالی کورٹ کے ان تمام فیصلوں کو جو آہین اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے من پسند ججز کی مدد سے کیے گئے تھے ان پر نظر ثانی کر کے آیین اور قانون کے مطابق مسترد نہیں کیا جاتا اسوقت تک بحران جاری رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں تقرری اور اس کے کام کرنے کے عمل میں شفاعت لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے جس میں تمام اہم آئینی و قانونی مقدمات کی سماعت کے لیے بنچوں کی تشکیل اور ان کو براہ راست نشر کرنا شامل ہے تاکہ عوام کو حقائق کی مکمل آگاہی حاصل ہو سکے۔ اور عدلیہ کو آزادی کے ساتھ عدل فراہم کام کرنے پر مامور کیا جا سکے۔
  آج جس بحرانی کیفیت سے ملک اور عوام کی اکثریت دوچار ہے اس لمحے تمام امیدیں جنرل عاصم منیر اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے وابستہ ہیں۔ لیکن صرف امیدوں پر زندہ رہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے تمام جمہوری قوتوں،دینی تنظیموں، وکلاء، طلباء، مزدور، صحافیوں اور دیگر حلقوں کو متحد ہو کر ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اداروں کو مضبوط بنانے اور ان کو اپنے آئینی دائرہ کار میں کام کرنے پر مامور کیا جا سکے عدل کی جلد از جلد فراہم کو ممکن بنایا جا سکے اسطرح سے ملک کو دوبارہ سے اس راستے پر گامزن ہونے کی راہ ہموار ہو سکے گی جس کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یقیناً اللہ کی رحمت سے آنے والا وقت عوام کے لئے اچھی خبریں لیکر آئے گا۔

  

Post a Comment

0 Comments