Header Ads Widget

رحمتہ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے

 


آج دنیا میں جب دین اسلام مغلوب ہے یعنی اللہ کے احکامات کی مکمل طور پر پامالی ہو رہی ہے اور ہم ایمان کے دعویداروں کی اکثریت اس سے لاتعلق ہی نہیں بلکہ کفر اور شرک کے نظام میں مادی آسائشوں کے حصول اور اس نظام میں پھلنے پھولنے میں مگن ہیں تو پھر ہمارا اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا دعوٰی صرف جھوٹ اور دھوکہ ہے اور یہ دھوکہ ہم اللہ سبحانہ و تعالٰی کو تو دے نہیں سکتے اسلئے اس کو صرف ہم اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہی کہہ سکتے ہیں۔ اور اس میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کوتاہیوں کے باوجود ہمیں اللہ اور اسکے رسول سے محبت کا دعوٰی کرتے ہوئے کوئی شرم اور خوف بھی محسوس نہیں ہوتا۔
بےشک دنیا میں ایسے لوگوں کی ہر زمانے میں موجودگی کا اعلان اللہ سسبحانہ و تعالٰی نے واضح طور پر کیا ہے اور ان ہی کو کامیابی کی نوید دی گئی ہے جن کے دلوں میں حقیقی معنوں میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا جذبہ ہوتا ہے جو ان سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔
 حالیہ دور میں مفکر قرآن علامہ اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کو احیاء اسلام کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے اور اس کی بدولت آج دنیا بھر میں پھر سے اہل ایمان اپنے مقصد تخلیق کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں ان کے دل میں اللہ او4 اس کے رسول کے رسول کی محبت اور عقیدت کا اظہار ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے
عشقِ رسول اقبال کی رگ رگ میں سرایت تھا۔ جہاں بھی ہوتے مدح رسول سے خود کو قوت وتوانائی بخشتے، 

 اور حقیقت یہی ہے کہ اقبال کا کلام سر سے پا تک عشق رسول کا ہی نتیجہ ہے۔ عاشق چاہے جیسا بھی ہو وہ کبھی بھی اپنے معشوق کے سامنے شرمندگی برداشت نہیں کرسکتا۔ 

علامہ اقبال خدا سے التجا کرتے ہیں کہ اے اﷲ روزمحشر مجھے میرے محبوب کے سامنے شرمندہ نہ کرنا۔ اس کے لیے علامہ کا فارسی کا ایک شعر ملاحظہ ہو  

"تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روزِ محشر عذر ہائے من پذیر

یا اگر بینی حسابم ناگزیر

از نگاہ مصطفےٰ پنہا بگیر"

    'اے خدا تو دونوں جہاں سے بے نیاز ہے اور میں فقیرومحتاج ہوں۔ تیری بے نیازی کا تقاضا تو یہ ہے کہ محشر کے دن میرے عذر قبول فرما۔ اور اگر میرا حساب لینا ضروری ہے تو (میرے محبوب) محمد مصطفی کی نظروں سے پوشیدہ لینا۔ تاکہ میرے محبوب کے سامنے مجھے شرمندہ نہ ہونا پڑے'
اس لیے ہمیں آج اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس بات کا تعین کر سکیں کہ کیا ہم واقعی عاشق رسول ہیں اور اس دعوے کو عملی جامہ پہنانے کیلئےہمارا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔

یہ سارا لائحۂ عمل سُنّت ِ رسول ﷺکی شکل میں ہمیشہ کے لیے ہماری رہنمائی کا ذریعہ ہے ۔اس عمل کے بنیادی اجزاء یہ ہیں :

  دعوت ِاسلام بذریعہ قرآن

   حزبُ اللہ (اللہ کی جماعت) کی تلاش اور اس کا حصہ بننا 

  نظامِ باطل کے خلاف اقامت ِدین کی جدّوجُہد

اللہ کے دین کے نفاذ کی جدوجہد کر کے ہم اپنی ہی عاقبت کو سنواریں گے‘ کسی پر احسان نہیں کریں گے۔ قیامت کے روز ہر مسلمان کو اس کے حالات‘معاملات اور وسائل و صلاحیتوں کے پیمانے پر پرکھا جائے گا ‘جو کہ عین عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے نفاذ کی جدّوجُہد میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق‘ طاقت اور ہمت عطا فرمائے تاکہ ہم اپنے رحمتہ للعالمین سے محبت کے تقاضے پورے کر سکیں۔آمین!

Post a Comment

0 Comments